وقت گزرنے کے ساتھ اسمیں تبدیلی ہوتی رہی ہے جیسے
زردشتیوں نے دنیا میں نیکی اور بدی کی جنگ
دیکھی تو یہ سمجھ لیا کہ اچھائی کا خدا یزداں ہے اور برائی یعنی شر کا خدا
اہرمن ہے دونوں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہےکبھی یہ غالب آجاتا کبھی وہ۔ کسی فرقے نے
کائنات کے مظاہر یعنی phenomenon کو اصل سمجھ لیا
اور نیچر کی پوجا کرنے لگے۔ کسی نے یہ غور کیا کہ مادہ بھی لا زوال ہے یہ
فنا نہیں ہوتا ، روپ بدل لیتا ہے، اسی طرح
روح بھی ازلی ہے و ابدی ہے وہ ایک بدن سے دوسرے بدن میں سفر کرتی رہتی ہے، کسی نے
سوچا کہ انسان جو دکھ درد میں مبتلا ہوتا ہے اسکا سبب خواہش نفس ہے، خواہشوں کو
ختم کر دو، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ "اللہ" کے لفظ پر بھی غور
کر لیجئے ۔ عربی زبان میں god کو الہ کہتے ہیں
اور کسیcommon noun کو proper noun بنانے کے لئےالف لام definite article کی طرح
آتا ہے۔ الہ پر الف لام آیاہے تو وہ اللہ ہو گیا۔ Godکے ساتھ توthe نہیں آتا مگر یہاں آپ the Godسمجھ لیجئے۔
یعنی وہی ایک پوجا کا پاتر ہے، انادی ہے، اننت ہے، نرگن ہے، نراکار ہے، نہ وہ
کسی سے پیدا ہوا ، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، وہ کسی جگہ میں بھی بند نہیں ہے، ورنہ
محدود ہو جائےگا، اسکی کوئی سمت یا بھی نہیں ہے، وہ ہر جگہ ہے، ہر چیز کا خالق ہے
، پالنہار ہے، سب کو دیکھتا ہے، سب کو سنتا ہے، مگر اسکا دیکھنا آنکھ کے وسیلے کا
محتاج نہیں ، اسکے سننے کو کانوں کا واسطہ درکار نہیں، وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے،
نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے۔ اسکے کوئی شکل نہیں کوئی صورت نہیں کوئی مورت نہیں۔ قرآن
کہتا ہے کہ اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔
صوفیہ
جب مراقبہ کرتے ہیں تو ایک منزل ذات بحت
یعنی pure and ultimate being کا دھیان کرنے کی آتی ہے ، وہ کہتے
ہیں کہ اس مرحلے میں کچھ نہیں سوجھتا ، سیاہی اور تاریکی نظر آتی ہے۔ جدید سائنس
بھی یہ کہتی ہے کہ نور یا light جب بہت زیادہ ہو
جائے تو سیاہ ہو جاتی ہے۔ continued...
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.