قرآن نے صاف لفظوں میں اعلان کیا ہے کہ "اے محمد (ﷺ) لوگوں سے کہہ دیجئے
کہ میں تمھارے جیسا ہی ایک انسان ہوں ، بس اتنا فرق ہے کہ میرے پاس اللہ کا پیغام
(وحی) آتا ہے"۔ آپ نے کسی طرح کی کا
دعوہ نہیں کیا۔ عام انسانوں کی طرح رہے۔مخالف ہنسی بھی اڑاتے تھے کہ یہ کیسے
پیغمبر ہیں جو بازار میں چلتے پھرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے دعا مانگی تو یہ کہ "اے اللہ ! مجھے مسکین بنا کر
زندہ رکھیو ، مسکینی کی حالت میں
ہی موت دیجیواور قیامت کے دن مجھے مسکینوں
اور فقیروں کے ساتھ ہی اٹھائیو۔"
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کوئی خاص رسم نہیں ہے۔ بس زبان سے کلمہ پڑھنا ہوتا
ہے اور دل سے اسکو ماننا ہوتا ہے۔ کلمہ یہ ہے کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ و
اشہد ان محمد ا عبدہ و رسولہ یعنی میں
گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہےاور یہ بھی گواہی دیتا
ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ تو بنیادی کلمہ ہے، ایک دوسرا کلمہ بھی ہے جسے ایمان مفصل کہا جاتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ " میں ایمان لاتا
ہوں اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر ، اور اسکی کتابوں پر ،اور اسکے رسولوں پر ، اور
اس پر ایمان لاتا ہوں کہ نیکی اور بدی ، یعنی اچھی اور بری ہر بات پر قدرت اللہ ہی
کو ہے، اور مرنے کے بعد حساب کتاب کے لئے اٹھائے جانےپر ایمان لاتا ہوں۔"
اس کلمے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دین
انجیل اور تورات پر بھی ہےاور حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت پر بھی ہے۔ اگر کوئی حضرت
عیسی علیہ السلام یا حضرت موسی علیہ السلام کو نہ مانے تو وہ مسلمان نہیں رہیگا۔
اگرچہ عیسائ اور یہودی حضرت محمد ﷺ کو نہ مان کر عیسائ اور یہودی رہتے ہیں۔
اللہ کے فرشتوں اور اللہ کی بھیجی ہوئ کتابوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہےکہ ہمیں
ان سب مذہبی کتابوں کا احترام کرنا چاہئے۔ جنہیں کوئی قوم اپنی مقدس کتاب کہتی ہے۔
اسلام کا کہنا ہے کہ انسان کا فطری عقیدہ 'توحید' ہے۔
continued...
continued...
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.