اللہ غنی ہے ہم سب فقیر ہیں۔ غنی اسکو کہینگے جو ان چیزوں کی احتیاج بھی نہ
رکھتا ہوجو اسکے پاس ہیں، فقیر وہ ہے کہ جو وہ نہیں رکھتا اسکا محتاج ہے۔
زندگی اور موت کا دینے والا بھی اللہ ہے، وہی ہے جو ایک حقیر سے بیج کو تناور
درخت بنا دیتا ہے۔ وہی ہے جس نے زمیں کی مٹی میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ لاکھوں برس سے
وہ پیداوار دے رہی ہے بلکہ اب تو پہلے سے بھی زیادہ دے رہی ہے۔
اللہ ہی ہے جس نے اربوں کھربوں ستاروں کو ایک دوسرے سے ایسا باندھ دیا ہے اور
اتنے فاصلے پر رکھا ہے کہ وہ آپس میں نہ ٹکرائیں۔
وہی ہے جو بادل بھیجتا ہے پانی برساتا ہے، ہوا چلاتا ہے، اسی نے یہ کائنات
اپنے ایک اشارے سے پیدا کی ہے، اور اسی کے حکم سے ایک دن یہ فنا ہو جائےگی۔
انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ viceroy بنا کر بھیجا ہے، اسے کچھ اختیارات دئے ہیں کچھ
باتوں میں مجبور رکھا ہے، تقدیر ضرور لکھی ہے مگر تدبیر کو بھی اثر سے خالی نہیں
چھوڑا ہے۔
انسان کی عظمت کا جیسا تصور اسلام میں ہے شاید ہی کہیں اور مل سکے۔ اللہ کہتا
ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین نقشے پر پیدا کیا ہے، دوسری جگہ کہتا ہے کہ ہم نے
انسان کے پتلے میں اپنی روح پھونکی ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کے آگے سر
جھکائیں، جس نے یہ حکم نہ مانا اسے شیطان قرار دے کر نکال دیا گیا۔
لیکن انسان کی اس عظمت کے ساتھ
ایک اور آزمائش بھی ہے۔ اسلام آخرت پر زور دیتا ہے، یعنی اس زندگی کے بعد ایک اور
زندگی بھی ہے۔ سب انسان دوبارہ زندہ کئے جائنگے اور انہیں اس دنیا کی زندگی کے ایک
ایک چھن کا حساب دینا ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں کیا تھا وہ سب replay کرکے دکھایا جائےگا، خود انسان کے ہاتھ
پاؤں وغیرہ گواہی دینگے۔ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی اسکا بدلہ پائےگا، جس نے ذرہ
بھر بدی یا شرارت کی ہوگی اسکی سزا پائےگا۔
یہ امتحان فرشتوں کا نہیں ہوگا وہ لذت گناہ سے واقف ہی نہیں، حیوانوں کا بھی
نہیں ہوگا انہیں عقل ہی نہیں دی گئی، انسانوں کا حساب کتاب ہوگا اسلئے کہ انسان کو
کسی قدر اختیار بھی دیا ہے ، عقل بھی، وہ نیکی اور بدی کا علم بھی رکھتا ہے،جسمانی
خواہشات بھی۔ اسے اس زندگی میں توازن کے
ساتھ ایسے گزرنا ہوتا ہے جیسے نٹ رسی پر چلتا ہے۔
جاری
۔۔۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.